پیر 16 دسمبر 2024 - 12:35
مادر ادب و معلمۂ وفا حضرت ام البنین (س)

حوزہ/ یادوں کا قافلہ وقت کی دھول اڑاتا مدینے کی گلیوں کی طرف لوٹتا ہے، جہاں ایک چھوٹا سا صحن دھوپ کی سنہری چادر اوڑھے، خاموشی سے وقت کے بہاؤ کو دیکھ رہا ہے۔ صحن کے ایک کونے میں کھجور کے درخت کے نیچے بیٹھی وہ خاتون، جس کے ہونٹوں پر دعائیں تھیں اور آنکھوں میں ایک عجیب سا سکون۔ یہ فاطمہ بنت حزام تھیں، جنہیں دنیا بعد میں "ام البنین" کے نام سے جاننے لگی۔

تحریر: مولانا محمد احمد فاطمی

حوزہ نیوز ایجنسی| یادوں کا قافلہ وقت کی دھول اڑاتا مدینے کی گلیوں کی طرف لوٹتا ہے، جہاں ایک چھوٹا سا صحن دھوپ کی سنہری چادر اوڑھے، خاموشی سے وقت کے بہاؤ کو دیکھ رہا ہے۔ صحن کے ایک کونے میں کھجور کے درخت کے نیچے بیٹھی وہ خاتون، جس کے ہونٹوں پر دعائیں تھیں اور آنکھوں میں ایک عجیب سا سکون۔ یہ فاطمہ بنت حزام تھیں، جنہیں دنیا بعد میں "ام البنین" کے نام سے جاننے لگی۔

جس طرح قرآن مجید نے مریم و آسیہ علیہما السلام کو اسوہ حسنہ قرار دیا کیونکہ اپنے اپنے زمانے میں ایک نے اپنے وقت کی حجت خدا کی اطاعت میں کمال پایا اور ایک نے اپنے وقت کے نبی کی تربیت کا کارنامہ انجام دیا۔ حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا کی ذات میں ایک وقت میں یہ دونوں صفات جمع ہو گئیں۔

جہاں آپ عباسؑ، عبداللہؑ، جعفرؑ، اور عثمانؑ کی والدہ تھیں وہیں آپ حسنین علیہم السلام کی والدہ بھی قرار پائیں۔ یہ کوئی عام خاتون نہ تھیں، بلکہ محبت، ایثار، اور قربانی کی ایسی مثال، جس کی گونج صدیوں تک باقی رہی۔ حضرت علیؑ کے نکاح میں آنے کے بعد فاطمہ نے صرف ایک بیوی کا نہیں، بلکہ ایک ماں کا کردار بھی نبھایا۔ امام حسنؑ، امام حسینؑ، زینبؑ، اور ام کلثومؑ کے لیے ان کا دل ایک سمندر تھا، جہاں ممتا کی موجیں سکون سے بہتی تھیں۔ انہوں نے کبھی یہ محسوس نہ ہونے دیا کہ وہ ان کی سگی ماں نہیں۔

زندگی اپنے معمول پر چل رہی تھی، لیکن تقدیر کے پردے میں ایک عظیم امتحان لکھا جا چکا تھا۔ جب کربلا کی آندھیوں نے اہلِ بیتؑ کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا، تو ام البنین نے اپنے بیٹوں عباسؑ، عبداللہؑ، جعفرؑ، اور عثمانؑ کو امام حسینؑ کی مدد کے لیے روانہ کیا۔ وہ جانتی تھیں کہ یہ راستہ موت کا ہے، لیکن ان کے دل میں دین کی محبت اور حق کی حمایت کا جذبہ ہر خوف پر غالب تھا۔

کربلا کا معرکہ ہوا، ریت سرخ ہوئی، اور شہادت کی داستانیں لکھی گئیں۔ جب مدینہ میں شہادتوں کی خبر پہنچی، تو ام البنین کا دل گویا تڑپ اٹھا۔ وہ اپنے بیٹوں کی موت پر گریہ کرتیں، لیکن ان کی زبان پر گویا یہ الفاظ ہوتے: میرے عباسؑ اور میرے بیٹوں کی قربانی امام حسینؑ کے قدموں میں قبول ہو۔ ان کی موت کا دکھ نہیں، بلکہ حسینؑ کی جدائی کا غم میرے دل کو جلاتا ہے۔

مدینہ کی گلیوں میں اکثر لوگ ام البنین کو دیکھتے، جو شہادت کے ان اشعار کو دہراتی تھیں جن میں امام حسینؑ کی محبت اور عباسؑ کی وفا کے تذکرے ہوتے۔ ان کا غم ذاتی نہ تھا، بلکہ ایک ماں کا وہ دکھ تھا جو امت کے حق میں قربان ہوا۔

یہ کسی عام خاتون کی داستان نہیں، بلکہ قربانی کے اس فلسفے کی جھلک ہے جو صدیوں سے انسانی تاریخ کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ حضرت ام البنین کی زندگی ایک ایسی شمع کی مانند ہے، جو جل کر دوسروں کو روشنی دیتی ہے۔ ان کا ایثار، ان کی محبت، اور ان کا صبر رہتی دنیا تک انمٹ نقوش چھوڑ گئے ہیں، جنہیں وقت کی دھول کبھی مٹا نہیں سکتی۔

ام البنین سلام اللہ علیہا نے تربیت و اطاعت کے دونوں میدانوں میں وہ معرکہ سر کیا ہے کہ اللہ نے آپ کو انسانیت کے لیے ایک نمونہ عمل اور مینارہ نور بنا دیا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .

مقبول ترین

تازہ ترین